اچھے بابا (بچوں کی کہانیاں)

 

اچھے بابا

 

موسم بڑا خوشگوار تھا۔آسمان پہ ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے۔سورج کی کرنیں پہاڑوں کے درمیان بنے گلیشیئر کے پیچھے سے جھانکتی دلکش نظارہ پیش کر رہی تھیں۔جیپ جب پھولوں سے سجے ہوئے چھوٹے سے کاٹیج کے سامنے رکی تو یاسر بے اختیار چلایا:”واہ بابا!یہ جگہ تو بہت اچھی ہے۔
ہاں۔“ بابا نے ہنستے ہوئے بولے اور ڈرائیور سے سامان نکالنے کے لئے کہا۔


امی جان اور حدیبہ بھی جیپ سے اُتر آئیں اور خوبصورت نظارے دیکھنے لگیں۔
اِدھر کھانے کا کیا انتظام ہے خان بابا!“صدیقی صاحب نے ڈرائیور سے پوچھا۔
خان بابا سامان اندر لے جاتے ہوئے بولے:”صاحب!آپ اندر چلیں،میں کھانا چائے سب بھجواتا ہوں۔
کاٹیج نما یہ چھوٹے چھوٹے سے گھر یہاں رہنے والے مقامی لوگوں کے ہیں۔

خاص طور پر سیاحوں کے لئے ہی بنوا کے سستے داموں کرائے پہ دیتے ہیں۔

اس رقم سے ان کی سال بھر کی گزر بسر چلتی رہتی تھی۔یہاں ٹھہرنے والے سیاحوں کے لئے ہلکا پھلکا کھانا اور چائے وغیرہ وہ اپنے گھر سے تیار کر کے ہی لاتے تھے۔
کیوں بھئی!کیسی لگی یہ جگہ؟اب تو آپ لوگ خوش ہیں نا!“ صدیقی صاحب نے ہنستے ہوئے بچوں سے پوچھا۔
بہت اچھی جگہ ہے بابا!“ تیرہ سالہ حدیبہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی:”اتنا خوبصورت نظارہ ہے اور باہر سڑک کے دوسری طرف جھیل بھی ہے۔


مگر سڑک کے اُس طرف تو پہاڑ ہیں۔“ یاسر بولا۔
نہیں جھیل بھی ہے،میں نے دیکھی۔
اچھا بھئی اب تم لوگ تھوڑی دیر آرام کر لو،سفر سے تھک کر آئے ہو،شام کو سیر پر چلیں گے۔“امی نے بچوں سے کہا۔
اس سال گرمیوں کی چھٹیوں میں یاسر نے امی ابو سے فرمائش کی کہ وہ اس بار کسی چھوٹے سے پہاڑی علاقے کی سیر کرنا چاہتا ہے۔

یاسر چھٹی جماعت کا طالب علم تھا اور ایک محنتی اور ہونہار بچہ تھا۔بابا نے اس کی یہ فرمائش پوری کر دی اور وہ لوگ چند دن کی چھٹیاں منانے وادی ہنزہ کے چھوٹے،مگر خوبصورت سے گاؤں کی سیر کو آئے تھے۔
شام کو وہ لوگ آرام کر کے اُٹھے تو ایک مقامی شخص شام کی چائے اور بسکٹ وغیرہ لے کر ان کی خدمت کے لئے آ گیا۔شاید اسی آدمی نے ان کو یہ گھر کرائے پر دیا تھا۔

اُس کے ساتھ آٹھ نو سال کا ایک چھوٹا بچہ بھی تھا،جو کھانے کی ٹرے اُٹھائے کھڑا تھا۔
یاسر نے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھا،مگر اسے محسوس ہوا کہ بابا کے چہرے پہ اس بچے کو دیکھ کے ناگواری کے تاثرات چھا گئے تھے۔انھوں نے بچے سے ٹرے بھی نہ لی،بلکہ گھورتے ہوئے اسے بس ٹرے رکھنے کا اشارہ کر دیا۔
یاسر کو دکھ ہوا۔کیا اس کے بابا غریبوں کو پسند نہیں کرتے؟اسے پہلی بار یہ احساس ہوا۔

یاسر نے بچے کی طرف دیکھا۔وہ ایک سرخ و سفید رنگت والا ایک پیارا سا بچہ تھا جو معصومیت سے اسے دیکھتا چلا گیا۔
چلو یاسر!جھیل پہ چلتے ہیں۔“حدیبہ کی آواز پہ وہ چونکا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ سب گھومنے باہر چلے گئے۔دوسرے دن صبح وہی بچہ ناشتے کی ٹرے لے کر آیا تو صدیقی صاحب نے اس سے ٹرے لے کر کسی بہانے سے اسے باہر بھیج دیا۔
یاسر نے یہ دیکھا تو اس کا دل بہت دکھا۔

آخر وہ بھی تو اسی کی طرح ایک معصوم بچہ تھا۔یاسر اُداسی سے سوچتا رہا۔کچھ دیر بعد جب وہ،حدیبہ اور امی جان وادی کی طرف چہل قدمی کو نکلے تو یاسر کو وہی بچہ جاتا ہوا نظر آیا۔یاسر بے اختیار اس کے پاس گیا۔
سنو۔تمہارا نام کیا ہے؟
ارباب خان۔“ نیلی نیلی آنکھیں جھپکتے وہ آہستگی سے بولا۔
پڑھتے ہو؟“یاسر نے پوچھا۔


نہیں،کوئی پڑھاتا نہیں۔“ارباب خان معصومیت سے بولا۔
تو پھر تم کیا کرتے ہو سارا دن؟
یاسر بیٹا آ جاؤ۔“امی کی آواز سن کر یاسر واپس پلٹا۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ارباب خان کی کسی طرح مدد کرے۔کچھ پیسے۔یا پھر اس کے وہ کپڑے،جو اس نے کم ہی پہنے تھے․․․․․وہ سوچتا رہا۔وہ لوگ واپس گھر آئے تو بابا ارباب خان کے والد سے باتیں کر رہے تھے۔


اتنے چھوٹے بچوں سے آپ کام کرواتے ہیں!ان کی تو ابھی اسکول جانے اور کھیلنے کودنے کی عمر ہے۔“صدیقی صاحب افسوس سے کہہ رہے تھے۔
بس جی․․․․․ہم مجبور ہیں صاحب!ہماری کمائی اتنی نہیں ہوتی کہ ہم بچوں کو پڑھا سکیں اور․․․․․“
صدیق صاحب بات کاٹ کر بولے:”میں آپ کے بچوں کی پڑھائی کے سارے اخراجات آپ کو دے رہا ہوں اور آپ اپنا رابطہ نمبر بھی مجھے دے دیں،تاکہ ان معصوم بچوں کی تعلیم میں کبھی رکاوٹ نہ آئے۔
آپ کی بہت مہربانی۔“ارباب کے والد نے تشکر سے کہا۔
یاسر کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا اور وہ بے اختیار اپنے بابا کے گلے میں جھول گیا۔
بابا!آپ دنیا کے سب سے اچھے بابا ہیں۔“اس کی بات پہ سب بے اختیار مسکرا دیے۔



Post a Comment

0 Comments