ویران کنویں کا راز

 


ویران کنویں کا راز

 

ایک دن میں اپنی ڈاک میں آنے والا ایک خط دیکھ کرچونک پڑا۔ خط پرسندھ کے ایک دوردراز گاؤں کی مہرلگی تھی۔ خط کھول کردیکھا لکھا تھا:
محترم السلام وعلیکم!
میرا نام اللہ بخش چانڈیوہے۔ ہوسکتاہے، آپ مجھے بھول گئے ہوں۔ چلیے یاد دلائے دیتاہوں۔ چند سال پہلے حیدرآباد سے لاہورجاتے ہوئے ریل کے سفر میں آپ میرے ساتھ تھے۔

آپ سے خوب باتیں ہوئی تھیں۔ باتوں باتوں میں پتا چلاکہ آپ شکاری ہیں۔ رخصت ہوتے وقت میں نے آپ کاپتا لے لیاتھا۔ آج برسوں بعدایک ایسی مصیبت آپڑی ہے کہ آپ کوآوازدینے پرمجبور ہوگیا ہوں۔ تفصیل آپ تشریف لائیں گے توملاقات ہونے پرعرض کروں گا۔ اُمید ہے آپ اس ناچیز کی درخواست پر ضرور تشریف لائیں گے اور مجھے اس مصیبت سے نجات دلائیں گے۔


آگے اللہ بخش چانڈیوکاپوراپتالکھاتھا۔


خط پڑھ کرمجھے ٹرین کاوہ سفر یادآگیا اور ساتھ ہی اللہ بخش کامحبت بھراچہرہ نگاہوں کے سامنے گھوم گیا، مگر یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ اللہ بخش کوہم شکاریوں سے کیاکام پڑگیا ہے، کیوں کہ خط میں کسی جانور یاجنگل کا ذکرنہیں تھا۔خیر، میں نے وہ خط اپنے دوستوں کودکھایا تووہ کہنے لگے: سندھ سے ہمارے ایک بھائی نے ہمیں اپنی مدد کے لیے بلایا ہے۔

کچھ بھی ہوہمیں وہاں ضرور جاناچاہیے۔ چناں چہ سندھ جانے کے لیے تیاری میں مصروف ہوگئے۔
کچھ ضروری کام نبٹانے میں ہمیں دودن لگ گئے۔ تیسرے دن اہم اپنے مختصر سامان کے ساتھ روانگی کے لیے گاڑی میں سوار ہوئے۔ اللہ بخش کوہم اپنے آنے کی اطلاع پہلے ہی دے چکے تھے، اس لیے جیسے ہی ہم اسٹیشن پہ پہنچ کرگاڑی سے اُترے، اللہ بخش ایک بیل گاڑی اور گاڑی بان کے ساتھ اسٹیشن سے باہر ہمارامنتظرتھا۔

اللہ بخش بڑی محبت سے ہم سے گلے ملا۔ گاڑی بان نے ہمارا سامان بیل گاڑی پررکھا اور ہم بیل گاڑی پہ سوار ہوکراللہ بخش کے گاؤں کی طرف چل پڑے۔
راستے میں ہم نے اللہ بخش سے پوچھاکہ وہ کیامسئلہ ہے، جس کی وجہ سے وہ پریشان ہے۔ اللہ بخش کہنے لگا: کچھ عرصے پہلے میں نے اپنے گھرکے پچھواڑے ایک کنواں کھدوایا، لیکن چند فیٹ گہری کھدائی کے بعد نیچے سے سخت پتھریلی زمین نکل آئی اور کوشش کے باوجود مزید کھدائی نہ ہوسکی تومیں نے اس گڑھے کوویسے ہی چھوڑ دیااور ایک دوسری جگہ کنوں کھدوالیا۔

بعدمیں پہلے والا گڑھا جھاڑجھنکارسے بھرگیا۔ اب کچھ دنوں سے اس گڑھے سے عجیب سی آوازیں آنے لگی ہیں۔ خوف کی وجہ سے اُدھر سے کوئی نہیں سے گزرتا۔ میرے کھیت کے مزدوربھی کام چھوڑ کرچلے گئے ہیں۔ لوگ ان آوازوں کوبھوت پریت کی آوازیں سمجھتے ہیں۔ کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے جانے سے میں بہت پریشان ہوں، اسی لیے آپ بھائیوں کوزحمت دی ہے۔


بھائی اللہ بخش! آپ نے جھاڑجھنکارہٹاکردیکھانہیں کہ وہاں کیاہے؟ میں نے پوچھا۔
سائیں! ہم توڈرکے مارے اُدھرجاتے ہی نہیں۔ اللہ بخش نے کہا۔
یونہی باتیں کرتے کرتے ہم اللہ بخش کے گھرپہنچ گئے۔ یہ ایک سادہ سا دیہاتی طرزکامکان تھا۔ اس وقت شام ہوچکی تھی۔ ہم نے اللہ بخش سے کہاکہ ہمیں وہ گڑھادکھائے۔
اللہ بخش بولا: سائیں آپ سفرسے تھکے ہوئے ہیں نہا کرتازہ دم ہوجائیں۔

کھانا کھائیں اور آج رات آرام کریں، صبح گڑھا دیکھ لیں گے۔
گھر کے صحن میں چاپائیاں بچھادی گئیں۔کھاناکھانے کے بعد ہم چارپائیوں پربیٹھ گئے۔ دیر تک اللہ بخش سے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔پھراللہ بخش ہمیں آرام کرنے کاکہہ کرگھرکے اندرونی حصے کی طرف چلاگیا۔ ہم چارپائیوں پرلیٹ گئے اور سوچنے لگے کہ جانے یہ کیسی مہم ہے، نہ جانے اس گڑھے سے کیانکلے۔

یونہی سوچتے سوچتے ہم نیندکی وادی میں پہنچ گئے۔
صبح اُٹھے، ناشتا کیااور پھراللہ بخش کے ساتھ ہم گڑھے کی طرف چلل پڑے۔ گھر کے پیچھے ہی اللہ بخش کاکھجوروں کاباغ اور کھیت تھے۔ وہیں وہ گڑھا بھی تھا۔ گڑھے کوجھاڑم جھنکارنے یوں ڈھانپ رکھاتھا کہ گڑھے کے اوپرچھت سی بن گئی تھی۔ اللہ بخش نے ہماری مددکے لیے گاؤں سے کچھ لوگوں کو بلا لیاتھا۔

جولاٹھیاں اور کلہاڑیاں لیے ایک طرف کھڑے تھے۔ ہمارے کہنے پرکچھ جوان گڑھے کے اوپر سے جھاڑیاں ہٹانے لگے۔ ہم اپنے ہتھیارلیے کسی بھی صورت حال سے نبٹنے کے لیے تیارکھڑے تھے۔ جیسے ہی جھاڑ جھنکارگڑھے کے اوپرسے ہٹا، ہٹانے والے نوجوان بری طرح ڈرکرپیچھے ہٹے۔ ہم نے آگے بڑھ کرگڑھے میں جھانکا۔ وہاں جومنظر آیا، اس سے ہمارے بھی رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

گڑھے میں سیکڑوں زہریلے سانپ ادھراُدھر رینگ رہے تھے ۔ ان کی پھنکاروں سے عجیب ساشور گونج رہاتھا۔ یہی وہ آوازیں تھیں، جنھیں سن کرلوگ خوف زدہ ہوجاتے تھے۔
دراصل اس گڑھے کواردھرگرد کے علاقے کے سانپوں نے اپنا مسکن بنالیاتھا۔ دن کو وہ گڑھے میں چھپے رہتے تھے، رات کو اندھیرا ہونے پراپنے شکارکونکلتے تھے۔ ہم نے فوراََ سانپوں پرفائرکھول دیا۔

گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور سانپوں کی پھنکاروں سے کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی۔ ہم سانپوں کی کھوپڑیوں کونشانہ بنارہے تھے، جس سانپ کوگولی لگتی اس کی کھوپڑی کے پرخچے اڑجاتے۔ کچھ سانپوں نے گڑھے سے نکل کربھاگنے کی کوشش کی، مگرپیچھے کھڑے لٹھ برداروں نے اپنی لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے انھیں کچل ڈلا۔ آدھے گھنٹے کی اس جنگ میں سیکڑوں سانپ مارے گئے، ہم نے آخری سانپ کے مرنے تک فائرنگ جاری رکھی۔

جب تمام سانپوں کاخاتمہ ہوگیا تومزدوروں نے گڑھے کومٹی سے بھردیا یوں مردہ سانپ گڑھے میں ہی دفن ہوگئے۔
اس مصیبت کے خاتمے پراللہ بخش بے حدخوش ہوا۔ چاردن تک ہم وہاں مہمان رہے۔ اللہ بخش نے ہماری خوب خاطر مدارت کی۔ رخصت ہونے لگے تواللہ بخش نے کھجوروں کے تین تھیلے بھی ہمیں دیے کہ یہ سوغات اپنے ساتھ لے جائیں، پھرہمیں بیل گاڑی میں اسٹیشن چھوڑنے آیا۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور لاہور کی طرف روانہ ہوگئے۔


Post a Comment

0 Comments